عقل صریح اور نقل صحیح میں کبھی تعارض نہیں ہوسکتا ہے؟ امام ابن تیمیہ نے اور دوسروں نے یہ بات کی ہے اور لوگ اسکو اکثر دہراتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب کیا ہے ؟ ابن تیمیہ عقل صریح پر 'سلیم' کا اضافہ کرتے ہیں.
[العقل الصريح لا يخالف النقل الصحيح]
قال: (الرابع: أن يبين أن العقل الصريح يوافق ما جاءت به النصوص) .
اور اسکی وضاحت میں میں فرماتے ہیں:
العقل الصريح السليم يوافق ما جاءت به النصوص الصحيحة الثابتة، وهذه قاعدة ذهبية تحل إشكالات كثيرة، فالعقل الصريح السليم لا يمكن أن يخالف نصاً صحيحاً ثابتاً۔ ۔ ۔ ۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ عقل سلیم ہے کیا؟ میں نے یہاں پورا قاعدہ اس لیے نقل کیا ہے کہ صحیح اور صریح تو ایک لحاظ سے ٹیکنیکل چیزیں ہیں (دو جمع دو چار کی طرح) لیکن جب آپ سلیم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو یہ اقداری حکم یعنی ویلیو ججمنٹ ہے۔ آپ صرف کسی چیز کو رپورٹ نہیں کر رہے بلکہ اس پر ایک حکم بھی لگا رہے ہیں ۔ لیکن حکم صحیح یا غلط ہونے کا نہیں بلکہ غیر سلیم اور سلیم ہونے کا، صحت مند و غیر صحتمند ہونے کا، جو کہ ایک اقداری حکم ہے۔
اگر لوگوں کے عقل سلیم کے مختلف معیارات ہیں تو وہ مسئلہ پھر وہیں آ کر رک جاتاہے۔ آپ یہ کس طرح فیصلہ کریں گے کہ جس کو آپ عقل سلیم کہتے ہیں وہ عقل سلیم ہے یا جس کو میں عقل سلیم کہتا ہوں؟ دوسرے الفاظ میں یہ ٹیکنیکل عقل کا مسئلہ نہیں ہے یہ حقیقی یا سبسٹینٹو عقل کا مسئلہ ہے اور اس مسئلے کا حل ایمان کے بغیر ناممکن ہے اور ایمان کا فیصلہ عقل کی بنیاد پہ نہیں ہو سکتا کیونکہ عقل خود ایمانیات پر منحصر ہے ۔
سادہ الفاظ میں مسئلہ یہ ہے: اگر آپ یہ کہیں گے کہ عقل سلیم نقل صحیح کے موافق ہوتی ہے اور اسکے معارض نہیں ہوتی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسکا فیصلہ کون کرے گا کہ عقل سلیم کیا اور کیا نہیں؟ اگر آپ کہیں اسکا فیصلہ عقل خود کرے گی تو اس سے تسلسل لازم أئے گا اور اگر آپ کہیں کہ اسکا فیصلہ نقل کرے گی تو اس سے دور لازم آئے گا۔
دوسرے الفاظ میں بطور قاعدے کے یہ ایک بوگس قاعدہ ہے۔
شرع بتاتی ہے کہ عقل سلیم کیا ہے اور کیا نہیں اسی لئیے آپ عقل کی بنیاد پر شرع کا حتمی جواز پیش نہیں کرسکتے۔
اس لحاظ سے یہ درست ہے کہ شرع اور عقل سلیم میں کوئی تضاد نہیں ہے لیکن اسکی وجہ یہ نہیں کہ عقل کے پاس کوئی ماورائے شرع قوت ہے بلکہ اس لئیے کہ شرع شریف خود بتاتی ہے کہ سلیم کیا ہے اور کیا نہیں ۔
بالفاظ دیگر قاعدہ کا نفس مضمون درست ہے لیکن یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے ان معنوں میں جن معنوں میں شیخ الاسلام اس کو لے رہے ہیں کیونکہ قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور میرے حریف کے درمیان جو نزاع ہے اس کا فیصلہ یہ قاعدہ ایک غیر جانبدار ریفری کے طور پر کر سکتا ہے۔
مثلا اگر آپ مجھ سے پوچھیں عقل کیا ہے تو میں اسکا جواب آپ کو دے سکتا ہوں
میں کہوں گا عقل ایک انسانی استعداد ہے جس کا تعلق انسانی دماغ اور ذہن سے ہے۔
اس استعداد کا اظہار کم از کم تین طرح سے ہوتا ہے
اطلاعات کو منظم کرنا۔ اس میں تصورات کو قائم کرنا اور تصورات کے ذیل میں اطلاعات کو شامل کرنا سب شامل ہے اور اس کام کے لیے ایک بہت اہم جو قوت ہے وہ تجرید کی قوت ہے۔ تجرید کی قوت کے بغیر نہ تصورات قائم ہو سکتے ہیں نہ تصورات کو آپ معلومات کو منظم کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
دوسرا جو اس استعداد کے اظہار ہے وہ اس استنتاج اور استدلال کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ وہ قوت ہے جس کے ذریعے میں معلوم سے نامعلوم قضایہ کو اخذ کرتا ہوں اور اس استعداد کے کئی مظاہر ہیں۔ ان میں اہم ترین تین ہیں
استخراج
استقراء
استدلال افتراضی
اس استعداد کا تیسرا اظہار حتمیت کی جستجو ہے اور اس کے لیے عقل قواعد کلیہ بناتی ہے یہ تمام دوسرے قواعد کو محیط ہوتے ہیں اور ان کو اپنے اندر سمونے کی قوت رکھتے ہیں۔
اب اس کے مقابلے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عقل سلیم کیا ہے؟ ایک تعریف یہ ہو سکتی ہے جو امام غزالی نے کی ہے اور میرا خیال ہے امام ابن تیمیہ امام غزالی سے اس معاملے میں متفق ہوں گے وہ یہ ہے کہ عقل سلیم وہ عقل ہے جو نبوت کے نور سے منور ہو۔
اگر امام ابن تیمیہ کا یہ قاعدہ درست ہے تو اس میں اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ امام ابن تیمیہ اور اس کے مخالفین کے درمیان جو نزاعی مسائل ہیں ان کو حل کرنے کے قابل ہو۔
مثلا ایک امام ابن تیمیہ کے مفروضہ مخالف کو لیں جو کافر ہے۔ کیا یہ قاعدہ امام ابن تیمیہ اور ان کے کافر مخالف کے درمیان کسی نزاعی مسئلہ کا حل کرسکتا ہے ۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ نہیں کر سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل سلیم کی تعریف اور فہم شرع کی حقانیت کو تسلیم کرنے پہ منحصر ہے اور ظاہر ہے کافر شرع کی حقانیت تسلیم نہیں کرتا تو اس کا اور آپ کا نزاع جع ہے اس کا عقل سلیم کی بنیاد پر حل نہیں ہو سکتا۔
دوسرا سناریو لیں جس میں امام ابن تیمیہ کا مخالف کافر نہیں ہے بلکہ مسلمان ہیں۔ مثلا اشعری ہے مثلا امام رازی ہے۔ کیا یہ قاعدہ امام ابن تیمیہ اور امام رازی کے درمیان نزاع کو حل کر سکتا ہے؟ میرا یہاں بھی یہ دعوی ہے کہ یہ نہیں کر سکتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ عقل سلیم کا فہم نہ صرف شرع کو حق تسلیم کرنے میں منحصر ہے بلکہ اس خاص معاملے میں شرع کے خاص فہم پر بھی منحصر ہے۔ اور اگر امام رازی اور امام ابن تیمیہ کا نزاع شرع کی حقانیت پہ نہیں ہے جو واضح ہے بلکہ ایک خاص مسئلے میں شرع کے مخصوص فہم پر ہے تو اس نزاع کو اگر آپ عقل سلیم کی بنیاد پر حل کریں گے جو خود اس مسئلے میں شرع کے خاص فہم کی روشنی میں آپ سمجھ رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ عقل سلیم کو لانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا صرف یہ ہے کہ آپ نے اس سلسلے میں ایک اور بند کا اضافہ کیا ہے۔
اس لیے میں نے یہ کہا تھا کہ بطور قاعدہ کے یہ اصول ہے وہ بوگس ہے۔
پھر دہرا رہا ہوں۔ مجھے امام ابن تیمیہ کے اصول سے بحیثیت ایک دعوے کے کوئی اختلاف نہیں وہ ایک سچا دعوی ہے لیکن میں جو کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ دعوی ہے قانون نہیں ہے قاعدہ نہیں ہے فرقان نہیں ہے کرائٹیرین نہیں ہے۔