ہمارے حلقے کے بارے میں چند باتیں:
ہمارے حلقے کا کوئی علیحدہ تنظیمی ڈھانچہ یا تشخص نہیں ہے۔ ہم پاکستان و ما جوار میں موجود عمومی اسلامی کام کا حصہ ہیں اور ہمارے حلقے میں شامل تمام افراد کسی نہ کسی اسلامی جماعت سے وابستہ ہیں اور ہماری بنیادی وابستگی وفاداری الله و رسول کے بعد مسلمانوں کی عمومی جماعت اور ان مخصوص اسلامی جماعتوں سے ہے جو مسلمانوں کے عمومی اجماع کے اندر ہیں اور مقاصد دین میں سے کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے لیے کام کررہی ہیں اور امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہی ہیں۔
اس حلقے کے مرکزی لوگوں کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے گو کہ ان کے مذہبی اور مسلکی تناظر مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثلا بعض حضرت کا تناظر دیوبندی ہے بعض کا سیاق بریلوی ہے۔
عملی لحاظ سے ہمارا جو کام رہا ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کا جو فہم اللہ تعالی نے ڈاکٹر جاوید انصاری صاحب کو دیا ہے اور اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ فہم عدیم النظیر یعنی یونیک ہے اور کسی کے پاس نہیں ہے، اس کو اسلامی جماعتوں اور علماء تک پہنچانا ہے۔ ہمارے کام کا دوسرا بنیادی مقصد افراد کی تیاری ہے جن کو اس بنیاد پر مغرب کا عمیق فہم ہو تاکہ وہ ان بنیادی بصائر سے شروع ہوتے ہوئے مغربی نظام فکر و عمل کے مختلف پہلوؤں پر علمی عملی ادارتی فہم کو مسلسل حاصل کرتے رہے ہیں اس کو گہرا بناتے رہے اور اس کو علماء تک پہنچاتے رہیں۔
عملی لحاظ سے ہم نے دو بنیادی ایشوز پر ایجیٹیٹ کیا ہے۔ پہلا یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو کہا کہ وہ لبرل پالیسیاں، غیر انقلابی پالیسی چھوڑ دے اور سوٹوں میں ملبوس استعمار کے گماشتوں کے پیروی چھوڑ دے اور علماء کے پیچھے چلے۔ علماء کو ہر سطح پر قیادت دے اور علماء کی قیادت کے لیے اس ملک کو اس معاشرے کو تیار کرے۔ یہی اس کا کام ہے اور استعمار اور سرمایہ داری کا مقابلہ کرنے کے لیے علمی عملی اور ادارتی وسائل فراہم کرے۔ وہ علماء کی خادم جماعت ہے اور علماء کی خادم جماعت بنے۔
دوسری یہ کوشش کی ہے کہ علماء کی جماعت اسلامی کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ دورہوں۔ اور علماء سے یہ مسلسل گزارش کی ہے کہ وہ رسول پاک کے وارث ہیں اور اس وراثت کے انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں کو تو انہوں نے الحمد لله ادا کیا ہے لیکن اس کے سیاسی انقلابی اور ریاستی پہلوؤں سے، خاص طور پر استعمار کے غلبے کے بعد، انہوں نے بوجوہ صرف نظر کیا ہے، انکو اس وراثت کی طرف بھی واپس آنا چاہیے اور امت کی سیاسی قیادت کو سنبھالنا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر اسلامی کام اسلامی نہیں رہے گا۔
جماعت اسلامی اور علماء سے جو ہماری گذارشات ہیں وہ اپیل سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ یہ گذارشات ہیں کہ وہ انقلابی حکمت عملی اپنائیں۔ گذارش ہے کہ وہ مسلمانوں کی قیادت سنبھالیں۔ اس کے لیے اگر لائحہ عمل بنانے کا حکم کرتے ہیں تو وہ بنا کے دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔ گذارش ہے کہ تفرقہ بازی ختم کریں وغیرہ۔ لیکن یہ سب گذارشات ہیں۔ ان پہ اگر وہ عمل کریں تو فبہا۔ اور نہ۔کریں تو وہ خود ہی اس کے ذمہ دار ہوں گے اور انپر ہی اسکی جوابدہی بھی ہو گی۔ ہم کسی سازش کے قائل نہیں اور نہ کسی سازش کا حصہ بنیں گے ان جماعتوں اور علماء کے خلاف۔
ہم پاکستان میں موجود تمام مین سٹریم اسلامی جماعتوں کے کلی وفادار ہیں اور ہمارا مقصد موجود اسلامی کام، جماعتوں و اداروں کو مضبوط کرنا ہے کمزور کرنا نہیں ہے۔ ان کی فتوحات کو وسعت دینا ہے نقصان پہنچانا نہیں ہے ۔ ہمارا مقصد دیوبندیت کو مضبوط کرنا ہے۔ ہمارا مقصد بریلویت کو مضبوط کرنا ہے۔ ان کو کمزور کرنا نہیں۔ لوگوں نے تیس سال پہلے ہم پر الزام لگایا کہ ہم جماعت اسلامی کو اور جمعیت کو ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارے تیس چالیس سالہ کردارنے اس دعوے کو غلط ثابت کردیا ہے۔ انشاءاللہ دوسرے تمام الزامات سے بھی دامن بچاتے ہوئے عنقریب اپنے رب سے ملیں گے۔
ہمارے کام کی اسلامی کام میں کلی پیوستگی کی یہ دلیل ہے کہ یہ اسٹڈی سرکل ہمیشہ یا تو جماعت اسلامی کے اداروں میں ہوا ہے یا دیوبندی مدارس میں ہوا ہے یا بریلوی مدارس میں ہوا ہے یا ان جماعتوں سے اور اداروں سے منسوب لوگوں کی ذاتی رہائش گاہوں میں کبھی کبھی ہوا ہے۔
اور اس کی عملی دلیل یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی اور علماء کے دیگر جماعتوں نے جب بھی ہمیں جس کام کے لیے بھی بلایا اس پر ہم نے لبیک کہا ہے۔ اس کی تفصیل تو یہاں نہیں بتائی جا سکتی یہ کام ہمیشہ جاری رہتا ہے اور علماء جو بھی حکم دیتے ہیں اس کی تعمیل کی جاتی ہے۔ اسلامی جماعتوں کے قائدین عملی مدد چاہتے ہیں اس کی بھی تعمیل کی جاتی ہے۔
ہمارا ایک سب سے بڑا اور اہم کام قائم اسلامی حکومتوں کو مدد فراہم کرنا ہے۔ اس لیے آج ہمارے کام بہت بڑا اور اہم حصہ امارات اسلامی افغانستان کو عملی، فکری و ٹیکنکل مدد فراہم کرنا ہے، اس ایکسپرٹیز کے مطابق جو اس حلقے کے مختلف افراد کے پاس ہے اور افغان اکنامک گروپ اس کام کا ایک اہم حصہ ہے جو اس حلقے کے افراد پر مشتمل ہے۔
باقی ہم تمام مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں مسلمانوں کے بارے دل میں کوئی بغض اللہ نہ رکھے لیکن یہ کہ استعمار کے گماشتوں چاہے وہ سوٹوں میں ملبوس ہوں چاہے وہ جبوں میں ملبوس ہوں ان کے لیے ہمارے دل میں حقارت و نفرت کے سوا کچھ نہیں پائیں گے ۔
ہماری فکر کی بنیاد پہ مختلف افراد نے مختلف دکانیں بھی سجائیں ہیں اور ان لوگوں میں بعض مذہبی حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں بعض سوٹوں میں ملبوس حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ افراد وقت کے فیشن کے مطابق مختلف محرکات کے تحت چاہے وہ محرکات ذاتی منفعت کے محرکات ہوں یا اخلاص پر مبنی ہوں یا اندرونی کبر و غلاظت کے اظہار کا ذریعہ ہوں یہ سب اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ یہ تمام افراد، چاہے وہ ہمارا نام لیتے ہوں یا نہ لیتے ہوں، اپنے کام کے ذمہ دار خود ہی ہیں اس کا ہمارے کام سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر وہ ہمارا نام لے کر یا نام لیے بغیر مختلف خیالات کو سمجھے بغیر یا نیم سمجھ کی بنیاد پر نیم فہم کی بنیاد پر خیالاتی عمارتیں بناتے ہیں اور اس کی بنیاد پر انہوں نے اپنے اپنے حلقے بنائے ہیں تو یہ ناممکن ہے کہ اس تمام کام کی کوئی پولیسنگ کی جائے۔ اور اگر یہ ممکن بھی ہوتا تو اس کا کو کوئی فائدہ نہیں۔
هر کسی از ظنِ خود شد یارِمن
از دورنِ من نجست اسرارِ من
﴿ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَسَالَتۡ أَوۡدِيَةُۢ بِقَدَرِهَا فَٱحۡتَمَلَ ٱلسَّيۡلُ زَبَدٗا رَّابِيٗاۖ وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيۡهِ فِي ٱلنَّارِ ٱبۡتِغَآءَ حِلۡيَةٍ أَوۡ مَتَٰعٖ زَبَدٞ مِّثۡلُهُۥۚ كَذَٰلِكَ يَضۡرِبُ ٱللَّهُ ٱلۡحَقَّ وَٱلۡبَٰطِلَۚ فَأَمَّا ٱلزَّبَدُ فَيَذۡهَبُ جُفَآءٗۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ فَيَمۡكُثُ فِي ٱلۡأَرۡضِۚ كَذَٰلِكَ يَضۡرِبُ ٱللَّهُ ٱلۡأَمۡثَالَ ﴾ [ الرعد: 17]
قال ابنُ عبَّاسٍ رضي الله عنهما: ( هذا مثَلٌ ضربه الله، احتملتِ القلوبُ من الوحي على قَدر يقينها وشكِّها، فأمَّا الشكُّ فما ينفع معه العمل، وأمَّا اليقينُ فينفع الله به أهلَه ).
He sends water from the sky that fills riverbeds to overflowing, each according to its measure. The stream carries on its surface a growing layer of froth, like the froth that appears when people melt metals in the fire to make ornaments and tools: in this way God illustrates truth and falsehood- the froth disappears, but what is of benefit to man stays behind- this is how God makes illustrations.
اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا تو وادیاں اپنی (اپنی) گنجائش کے مطابق بہہ نکلیں، پھر سیلاب کی رَو نے ابھرا ہوا جھاگ اٹھا لیا، اور جن چیزوں کو آگ میں تپاتے ہیں، زیور یا دوسرا سامان بنانے کے لئے اس پر بھی ویسا ہی جھاگ اٹھتا ہے، اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثالیں بیان فرماتا ہے، سو جھاگ تو (پانی والا ہو یا آگ والا سب) بے کار ہو کر رہ جاتا ہے اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے، اللہ اس طرح مثالیں بیان فرماتا ہے
إمامنا الإمام مالك رضي الله عنه حين ألف الموطأ فقيل له إن فلانا ألف مثله منافسة لك فقال:- ما كان لله يبقى ويدوم وما كان لغيره يذهب ويزول.