مخلصین دین اور بالخصوص علمائے کرام ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم اقامتِ دین کے عمل میں ریاستی جدوجہد کو فوقیت دیتے ہیں اور یوں اقامتِ دین کے قدیم اور مقبول عام تصور میں ترمیم کرتے ہیں۔ یہ اعتراض ہم میں اور علمائے کرام میں نظریاتی دوریاں بڑھنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس مضمون میں اس اشکال کو واضح کرنے کی ایک طالب علمانہ کوشش کروں گا۔ علما سے استدعا ہے کہ ہماری اس معذرت کو قبول فرما کر ہمیں اپنی سرپرستی سے محروم نہ رکھیں۔
ہمارا موقف
بلاشبہ ہم حکومت الٰہیہ کی ضرورت کے قائل ہیں اور اپنی جدوجہد میں قیام ریاست اسلامی کے عمل کو اولیت دیتے ہیں۔ اقامت دین کا عمل قیام ریاست اسلامی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ قیام ریاست اسلامی تنفیذ احکام شرع کے لیے ضروری ہے۔ یہ نصوص صحیحہ سے ثابت ہے۔ اقامت دین کا عمل سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام ریاست مدینہ کے بعد ہی مکمل ہوا۔
اسلامی ریاست وہ ادارتی صف بندی ہے جو عوام و خواص کو اطاعت شرع مطہرہ پر مجبور کرتی ہے۔
دہریہ ریاستوں (لبرل، اشتراکی، قوم پرست) میں عوام و خواص الحادی (دورِ حاضر میں سرمایہ دارانہ) قوانین کی تابع داری پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ جب تک ریاستی انہدام کی اسلامی جدوجہد مرتب نہ ہو انفرادی تعلیم، تربیت اور اصلاح کے ذریعے الحادی نظاماتی اقتدار کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار دو عالم نے مکہ میں بھی دعوت و تبلیغ اور تعلیم پر اکتفا نہ کیا بلکہ مکہ میں قائم سیاسی ادارہ ندوہ کا مکمل بائیکاٹ کیا اور مسلمانوں کے تمام انفرادی اور اجتماعی فیصلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی فرماتے تھے۔ مکہ میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً ایک ریاست درونِ ریاست قائم کر دی تھی جس کو برداشت کرنا کفار کے لیے ناممکن تھا کیوں کہ جو شخص مسلمان ہوتا وہ ان کے دائرہ قانون سے عملاً نکل جاتا تھا۔ اسی وجہ سے مکہ میں مسلمانوں کے خلاف ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔
لیکن ہم قیام ریاست اسلامی کو اقامتِ دین کا لازمی جزو تو سمجھتے ہیں اس کا کل نہیں۔ ہم دعوت و تبلیغ، تعلیم و تزکیہ کو نہ غیر ضروری سمجھتے نہ کم اہم بلکہ ہماری رائے تو یہ ہے کہ تبلیغ، تزکیہ اور تعلیم کا فروغ جدوجہد قیام ریاست اسلامی کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔
ہمیں اس کا احساس ہے کہ تزکیہ و تعلیم کا کام کماحقہ انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ اور اصلاح کا یہ کام علمائے کرام اور صوفیائے عظام کی سرپرستی میں بخوبی انجام دیا جا رہا ہے لیکن قیام ریاست اسلامی کی جدوجہد مضمحل ہے۔ ہم تحریکات اسلامی کی اسی کمزوری کو رفع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
قدیم اسلامی سیاسی اکابر امام ماوردی، امام ابویعلیٰ، امام ابن خلدون وغیرہ نے قیام ریاست اسلامی کی جدوجہد کو فریضہ اقامت دین کا ایک ایسا جزو قرار دیا ہے جس کی تطبیق تحریک اقامت دین کے دوسرے اجزا تبلیغ، تعلیم اور تزکیہ سے کرنا لازم ہے۔ ہم اس ہی نوعیت کی نظاماتی تطبیق کے خواہاں ہیں۔
سامراج سرمایہ داری اور قیام ریاست اسلامی کی جدوجہد
برصغیر میں سامراج نے اٹھارھویں اور انیسویں صدی ریاست اسلامی کا شیرازہ بکھیر دیا۔ برصغیر میں ایک ہزار سال تک اسلامی ریاست قائم رہی۔ شرع نافذ رہی اور تمام اجتماعی فیصلے اسلامی علوم کی روشنی میں مرتب کیے جاتے رہے۔ ظاہر ہے کہ اس پورے دور میں قیام ریاست اسلامی کی جدوجہد کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
جب سامراج نے الحادی ریاست قائم کی تو علما کی صفوں سے اس عمل کی عسکری مزاحمت ہوئی۔ ان علما میں حضرت خیر آبادی، مولانا مدراسی، حاجی شریعت اللہ، سید بادشاہ، حضرت قطب الاقطاب مولانا محمود الحسن دیوبندی، حاجی ترنگ زئی، فقیر اپی رضوان اللہ اجمعین کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ ہماری جماعت انہی اکابر کی جدوجہد کی اتباع اور احیا کی کوشش کر رہی ہے۔
ہم سب ہیں اسی قافلۂ شوق میں شامل
جس قافلۂ شوق کے سالار ہیں شبیر
لیکن یہ تمام جہادی کاوشیں پسپا ہوئیں اور 1920ء کے بعد علمائے کرام نے قیامت ریاست اسلامی کو ناممکن تصور کر لیا اور تمام تر توجہ سامراجی سرمایہ دارانہ ریاست کی ماتحتی میں تحفظ دین پر مرکوز فرما دی۔ جہادی عمل سے رجعت اس غلط مفروضہ کی بنیاد پر توجیہ کی گئی کہ تعلیم اور تزکیہ کے معاشرتی پھیلاؤ کے نتیجہ میں خود بہ خود بلاسیاسی جدوجہد کے اسلامی ریاست وجود میں آ جائے گی۔
آج پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظاماتی تغلب قائم اور مستحکم ہے اور عوام و خواص تحکم قانون سرمایہ (rule of law of capital) کی تابع داری پر مجبور ہیں۔ یہ چیز سرمایہ دارانہ زر (capitalist money) کی عالمگیریت سے بالکل عیاں ہے۔ سرمایہ دارانہ زر سود Capitalist money and credit)) اور غرر کی تجسیم ہے اور کون ہے جو سرمایہ دارانہ زر کے استعمال سے گریز کر سکے۔
علما نے یہ بات فراموش کر دی ہے کہ سرمایہ داری میں ایک نظاماتی کلیت (systemic totality) ہے جو دھیرے دھیرے زندگی کے ہر شعبہ پر سرمایہ (یعنی وہ سرمایہ دارانہ زر جو اپنی بڑھوتری کے لیے اشیا اور اجسام سے مستقل گزرتا رہتا ہے) کو مسلط کرتا جاتا ہے۔ اس عمل کو محض تعلیم و تزکیہ سے ہرگز معطل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ویسی ہی ریاست درون ریاست(state within state) بنا سکیں جیسی سرکار دو عالم نے مکہ میں تعمیر فرمائی تھی۔ ورنہ ہر مجاہد و عابد، متقی اور ہر مخلص مسلمان تحکم قانون سرمایہ کی تابع داری پر مجبور ہو جائے گا۔
طالبان عالی شان اور ایرانی علما نے یہ کر کے دکھا دیا ہے اور الحمدللہ وہ افغانستان اور ایران میں تحکم قانون سرمایہ (rule of law of capital)کو بتدریج معطل کر رہے ہیں۔ اس عمل کو اسلامی انقلاب کہتے ہیں۔
اسلامی انقلابی عمل میں محض سیاسی جدوجہد کا نام نہیں۔ اسلامی انقلابی عمل صرف اس سیاسی جدوجہد کو کہتے ہیں جو سرمایہ دارانہ ریاستی ادارتی صف بندی کو تتر بتر کر کے سرمایہ کے نظاماتی اقتدار کو بتدریج معطل کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس نظاماتی انہدام کے بغیر معاشرہ میں گنجائشیں (spaces) پیدا نہیں کی جا سکتیں جس میں تعلیم و تزکیہ ان معنوں میں موثر ہو کہ احکام شرع پر عمل کرنا ممکن اور آسان اور قانون سرمایہ کی تابع داری معطل ہوتی چلی جائے۔
اے علمائے کرام یہ جماعت آپ ہی کی جماعت ہے۔ اسلامی انقلابی جدوجہد یعنی ریاست اسلامی کے قیام کی کوشش اقامت دین کا ایک جزو ہے۔ ایک ایسا جزو جس کی تطبیق اصلاحی کوششوں سے نہ کی گئی تو نہ اسلامی انقلابی جدوجہد کامیاب ہو سکتی ہے نہ اصلاحی اور تعلیمی کوششیں معاشرتی وسعت حاصل کر سکتی ہیں۔ تحریکات تحفظ اور غلبہ دین ایک دوسرے کا لازمہ ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون مولانا مودودی کے مقالہ ”تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل“ کی ایک تشریح ہے۔




