جماعت اسلامی کو لبرل جماعت بنانے کی سعودی جدوجہد پروفیسر خورشیداحمد کی تحریروں کے تناظر میں۔۔۔۔۔ڈا کٹر جاوید اکبرانصاری
قسط سوم
پروفیسر خورشید کے نظریات:
پروفیسر خورشید کے نظریات بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ آپ کے نظریات جماعت کی قیادت کی فکر کے غالب دھارے کی غمازی کرتے ہیں اور پروفیسر خورشید کے نظریات کی بنیاد پر ہی آج کل جماعت اسلامی کی سماجی اور سیاسی حکمت عملی بہت بڑی حد تک مرتب ہوتی ہے۔
پروفیسر خورشید پورے اخلاص کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جماعت کی کامیابی اور پیش رفت اس بات پر منحصر ہے کہ جماعت کا سیاسی اور سماجی ایجنڈا مسلم ممالک کی غالب سیاسی اور اقتصادی اشرافیہ کے لیے قابل قبول ہو اور جماعت کو اس اشرافیہ کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے جو جدوجہد پروفیسر خورشید 1951سے کر رہے ہیں (۴)جیسا کہ پچھلے سیکشن میں عرض کرچکا ہوں۔2002 کے بعد سے سعودی پالیسی کا ایک اہم ہدف اسلامی جماعتوں کو مجاہدین اسلام سے برگشتہ کرنا ہے۔2002ء کے بعد مجاہدین اسلام اپنی لازوال قربانیوں اور قابل فخر استقامت اور سرفروشی کے ذریعہ استعمار کے خلاف فتح پر فتح حاصل کر رہے ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں استعماری حکومتی غلبہ کے باوجود اسلامی ریاستی ادارتی صف بندی کے کام کو نہایت دانش مندی سے آگے بڑھایا ہے۔ ۔1980ء کی دہائی سے جماعت اسلامی مجاہدین اسلام کی حلیف رہی ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر کے شروع ہونے میں جماعت اسلامی پاکستان نے ایک نہایت اہم کردار ادا کیا ہے ۔
سعودی مفادات کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان مجاہدین اسلام کی مخالفت کرے، لہٰذا پروفیسر خورشید کے نظریات کے دو بنیادی Themes ہیں۔
۱۔ مجاہدین اسلام گمراہ، کم فہم اور ناعاقبت اندیش اور ناکام ہیں۔ وہ دانستہ اور نادانستہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ وہ جہاد نہیں فساد برپا کر رہے ہیں جماعت اسلامی کو عوام میں مجاہدین اسلام کو احمق اور خطرناک فسادی ثابت کرنا چاہیے۔
۲۔ غلبہ اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جماعت موجودہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی مخلصانہ قیادت سنبھال لے۔ انقلاب اسلامی کا مطلب سرمایہ دارانہ جمہوری نظام معاشرت اور ریاست کا انہدام نہیں بلکہ اسی نظام کے اندر نفوذ اور اس ہی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے مخلص ترین کارکن بن کر سرمایہ دارانہ عدل (جوکہ اُن کے خیال میں عدل اسلامی ہی کی ایک مقبول عام اور جائز شکل ہے) کو قائم کرکے عوام کے سرمایہ دارانہ حقوق اور اغراض کوفروغ دیں۔ یہی انقلاب اسلامی کا طریقہ ہے۔
اب میں پروفیسر خورشید کے تین حالیہ مضامین سے ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ یہی پروفیسر خورشید کے نظریات کی بنیادی تھیم (Themes) ہیں۔
پہلا مضمون وہ اداریہ ہے جوپروفیسر خورشید نے اسلام اینڈ دہ سیکولر مائنڈ ”Islam and the Secular Mind“ کے لیے لکھا۔ یہ کتاب مولانا مودودیؒ کے چند مضامین کے انگریزی ترجموں پر مشتمل ہے۔ یہ مضامین پہلے دو اردو کتابوں ”تنقیحات“ اور ”تفہیمات“ میں شائع ہوئے تھے۔ ان مضامین کا ترجمہ طارق جان صاحب نے کیا ہے۔ طارق جان صاحب ایک لبرل مفکر ہیں جو عرصہ دراز سے ”Impact“ میں مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن کے لبرل تراجم شائع کراتے رہیں ہیں
مولانا مودودیؒ کو انگریزی خواں حلقوں میں ایک لبرل مفکر کے طور پر متعارف کرانے کی مہم کا بیڑا پروفیسر خورشید نے 1950ء کی دہائی کی ابتداء سے اٹھایا۔ جب آپ نے Islamic Law and Constitution مرتب کی۔1980ء کی دہائی میں خرم جاہ مراد صاحب نے مولانا مودودیؒ کے لبرل تراجم شائع کیے۔ جس میں سب سے اہم ”تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں“ کا ترجمہ ہے۔ اب پروفیسر خورشید کی ادارت میں پندرہ کتابیں انگریزی زبان میں تیار کی جارہی ہیں۔ جو مولانامودودیؒ کو ایک لبرل مفکر کے طور پر پیش کریں گی۔
آج اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے قائدین کو لبرل مفکرین کی حیثیت سے پیش کرنا سعودی استعمار کی ایک اہم ضرورت ہے۔ مجاہدین اسلام آج لبرل سرمایہ دارانہ جمہوری نظام ہی سے برسرپیکار ہیں اور اگر تحریکات اسلامی کے کارکن لبرل سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو اسلام کی ایک جدید تعبیر کے طور پر قبول کرلیں تو وہ لازماً مجاہدین اسلام کو نادان، کم فہم، خطرناک فسادی سمجھنے لگیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی استعمار نے اسلامی جماعتوں میں لبرل نظریات کے فروغ کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ جن کتابوں میں امام حسن البناؒ اور سیدقطب شہید کو لبرل مفکرین کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی (Euben، Binder، Mitchellکی کتابیں) ان کی ترتیب واشاعت میں سعودی مالی تعاون شامل رہا۔ کیا تعجب کہ یہ تعاون آج مولانا مودودیؒ کے انگریزی لبرل مفکرین کو حاصل ہوا ہے۔
ہر ترجمہ لازماً اپنے مترجم کے میلانات کا کسی نہ کسی حد تک عکاس ہوتا ہے،میراگمان ہے کہ پروفیسر خورشید، جناب خرم مراد اور طارق جان صاحب پورے اخلاص کے ساتھ مولانا مودودیؒ کو ایک لبرل مفکر ہی سمجھتے ہیں اور انہوں نے یہ تراجم پوری دیانت داری کے ساتھ کیے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کو ایک لبرل مفکر تصور کرنا کچھ مشکل نہیں ”Islamic law and Constitution“ اور 1960 کی دہائی کے کیے ہوئے دوسرے تراجم جو لبرل تصورات اور مفروضات سے لبریز ہیں، پروفیسر خورشید نے خود مولانا مودودیؒ کی خدمت میں پیش کیے اور مولانا موددویؒ نے ان پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اپنی پوری زندگی مولانا مودودیؒ لبرل جمہوری نظام سے ہی توقعات قائم کیے رہے اور ان کا عمل اس ہی لبرل تعبیر کی تصدیق کرتا ہے جو پروفیسر خورشید اور خرم جاہ مراد پیش کرتے ہیں۔ لبرل ازم سے مراجعت کے لیے ناگزیر ہے کہ جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ کے سیاسی تصورات کو رد کرے۔
”Islam and Secular Mind“ کے Forword میں پروفیسر خورشید لبرل تصورات کی بھرپور وکالت کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں اسلامی تہذیب کا زوال اس کی ٹیکنالوجیکل (Technological) کم مائیگی، معاشی پس ماندگی اور سیاسی انتشار کی وجہ سے ظہور پذیر ہوا اور اسلام کے اس ہی مادی زوال کے سدباب کے لیے متجددین اور مجددین نے مشترکہ کوشش کی (انیسویں صدی کے مصلحین کی جو فہرست انہوں نے مرتب کی ہے اس میں محمد عبدہٗ اور رشید رضاؒ دونون شامل ہیں۔ پروفیسر خورشید کی رائے میں ”مولانا مودودیؒ مغربی تہذیب کے شاندار کارناموں اور اس کے نظریات کی افادیت کے منکر نہ تھے“۔
پروفیسر خورشید کے خیال میں سیکولر نظریہ کے تین عوامل ہیں ایک یہ کہ بدن کے مطالبات (Demands of body) کو غیراہم اور ناقابل توجہ نہ تصور کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ مذہبی برداشت Tolerance کو فروغ دے کر مختلف نظام ہائے زندگی کی اجازت دی جائے اور ان کی معاشرتی قدر کی جائے۔ اس کو پروفیسر خورشید ”Pluralism“ کہتے ہیں۔ تیسر ایہ کہ سیاسی، سماجی اور علمیاتی (Epistemological) دائرہ کار سے خدا اور مذہب کے اثرات کو ختم کیا جائے۔
پروفیسر خورشید کی رائے میں اسلام ضروریات بدن کو فروغ دینے کے رجحان اور Tolerance اور Pluralism کی بنیاد پر معاشرتی اور سیاسی تنظیم کو پورے طور پر قبول کرتا ہے۔ اس کو اعتراض صرف سیاسی دائرہ کار سے خدائی تعلیمات کی بے دخلی پر ہے۔ ان کے خیال میں قرآن کی چند آیات Tolerance اور Pluralism اور مادی ترقی کی فوقیت کے تصورات کا جواز پیش کرتی ہیں۔
خورشید صاحب کے خیال میں اسلام دنیاوی ترقی کے فروغ پر اتنا ہی زور دیتا ہے جتنا روحانی اور اخلاقی تعمیر پر۔ یہ دونوں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ پروفیسر خورشید کی رائے میں تمام Human being میں دنیاوی عدل قائم کرنا اسلام کا اصل مقصد حیات ہے۔ تحریک تنویر (Enlightenment) اسلام ہی کی پرتو ہے ”روحانیت مادیت میں مضمر ہے“۔ پروفیسر خورشید کے مطابق یہ اسی حدیث کا مفہوم ہے جس میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پوری دنیا میری مسجد ہے“ تاویل احادیث کے اصولوں سے لاعلمی نے پروفیسر خورشید کو اس نوعیت کی لغو تفسیر پیش کرنے کے لیے دلیر کر دیا ہے۔
پروفیسر خورشید کی رائے میں آزادی (Freedom) ایک بنیادی اسلامی قدر ہے اور نظام خلافت اس ہی قدر پر قائم کیا جاتا ہے، نظام خلافت Tolerant اور Pluralism معاشرت کا فطری سیاسی اظہار ہے۔ پروفیسر خورشید کے خیال میں یہ تشریحات سورہ بقرہ کی آیت ۶۵۲ سے نکلتی ہیں۔ اصول تفسیر کی لاعلمی نے پروفیسر خورشید کو اس نوعیت کی تشریحات پیش کرنے کے لیے دلیر کردیا ہے۔ وہ آیت ۶۵۲:۲ کو ”منشور آزادی“ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام ہر Human being کا حق خود ارادیت Freedom of choice غیرمشروط طو رپر قبول کرتا ہے۔
انسان کو یہ حق ہے کہ وہ غیراسلامی نظام زندگی اپنے لیے قبول کرے Pluralism اور Tolerance فطری اور خالصتاً اسلامی تصورات ہیں کیونکہ مسلمان Human being ہیں۔
”اس دنیا میں آزادی اور Pluralism کی بنیاد پرثقافتی اشتراک اور Tolerance ہمارے رہنما اصول ہیں“ آخرت میں جو فیصلے ہوں گے ان کا Tolerance اور Pluralism کے فروغ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کا سیاسی نظام Tolerance اور Pluralism کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔
”اسلام کے تصور حیات میں انسان کی بھی اتنی ہی مرکزیت ہے جتنی خدا کی“ روحانی ہدایت کا ایک مقصد Human being کی مادی ترقی ہے اور اسلام کا نظام ایک ایسے عادلانہ طرز زندگی کو فروغ دیتا ہے جس میں تمام Human being کی مساوی قدر تسلیم کی جائے“ یعنی Equality بھی ویسی ہی اسلامی قدر ہے جیسی Freedom، Tolerance اور Pluralism۔
پروفیسر خورشید لبرل پالیسی سازوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ مسلم دنیا پر سیکولر ازم کو مسلط کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مسلم دنیا میں اسلامی معاشرت کا فروغ لبرل اقدار کے فروغ کا بہترین ذریعہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اسلام کاری اور جمہوریت کاری کا چولی دامن کا ساتھ ہے اگر لبرل پالیسی سازوں نے سیکولر ازم کو مسلم دنیا میں فروغ دینے کی سعی کی تو وہ ایک غیرلبرل اور غیرجمہوری کام کریں گے۔
بقول پروفیسر خورشید ”مولانا مودودیؒ نے سیکولر ازم کی جو تنقید کی ہے وہ متشدد ہے صرف اس لیے کہ وہ ایک غالب نظریاتی اور علمی منہج کو چیلنج کرنے پر مجبور تھے اور چونکہ ان کے مخاطبین کم از کم اولاً تو برصغیر کے مسلمان عوام تھے“ مطلب یہ ہے کہ اب جب جماعت اسلامی کے مفکرین مغرب سے مکالمہ میں شامل ہیں تو وقت آگیا ہے کہ سیکولر ازم کو سراہا جائے اور پروفیسر خورشید کی طرح سیکولر نظام میں ایسی اصلاحات تجویز کی جائیں۔ جس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ لبرل جمہوریت کا ایک اسلامی چربہ دریافت کیا جاسکے۔
دوسرا مضمون امریکی ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ کے مراعات یافتہ Hartford Seminary کے رسالہ The Muslim world میں جنوری 2000ء میں شائع ہوا۔ واضح رہے کہ یہ رسالہ مجاہدین اسلام کے خلاف صحافتی جنگ میں ایک نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اس کی اشاعت کے خرچہ کا ایک بڑا حصہ سے US. Dept. of State نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے ۔ اس مضمون کا مقصد مجاہدین اسلام کی حکمت عملی کی مخالفت ہے۔ پروفیسر خورشید اپنے آپ کو ایک متوازن سوچ رکھنے والے دانش ور کے طور پر پیش کرتے ہیں، ایک ایسا ماڈریٹ Intellectual جن کے ساتھ ڈائیلاگ کرکے امریکا کو فائدہ ہی فائدہ ہے اور بقول پروفیسر خورشید ایسے ڈائیلاگ کے ذریعہ ”مذہبی احیاء (کو فروغ) دینے والے بین الاقوامی دہشت گردی کے آسیب(“ یعنی مجاہدین اسلام )کو فیصلہ کن شکست دی جاسکتی ہے۔
اس ڈائیلاگ کا مقصد عالمگیریت (Globalization) کو فروغ دینا ہے۔ اس منصفانہ عالمگیریت کو وسعت دینے کے لیے جمہوری عمل کو عالمگیر بنانا ہوگا کیونکہ بقول پروفیسر خورشید ”جمہوریت ایک ایسا کثیر جہتی نظام ہے“ جو تمام انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔ جیسا کہ عالمگیریت جو ”اپنی موجودہ شکل میں تاریخ کے رواں دور کا ایک رجحان ہے“۔
اس ”جمہوری عالمگیریت“ کی بنیاد مغرب کا سیاسی تجربہ ہی فراہم کرتا ہے۔ جس کی ”افادیت اور تنوع“ کے پروفیسر خورشید صاحب مداح ہیں۔ وہ امریکا سے شکایت کرتے ہیں کہ دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ وہ جمہوریت کی جس سیکولر قسم کے فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے وہ ”حقیقی جمہوریت“ نہیں۔
”حقیقی جمہوریت“ عوامی خودمختاری کے تصور اور عوامی حمایت پر مبنی حکومت ہے، یہی اس کا قابل تحسین اصول ہے۔ ”حقیقی جمہوریت“ کی روح حقیقی عوامی شرکت ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک ایسا سیاسی نظام قائم ہو جو عدل وانصاف اور مشاورت کے مقاصد کے حصول کو پورا کرے“۔ پروفیسر خورشید کی رائے میں ”اسلامی عقائد (ایسے) سیاسی ڈھانچہ کی شکل متعین کرتے ہیں۔ جسے صحیح معنوں میں روح اور عمل دونوں کے لحاظ سے حقیقی عوامی شرکت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر خورشید امید رکھتے ہیں کہ ”مسلم دنیا میں حقیقی جمہوری عمل جب بھی اور جہاں بھی ہوگا آخر کار یہ عمل اسلامی نظام ہی کی طرف رہنمائی کرے گا کیونکہ امت مسلمہ کے کینوس پر اسلام اور جمہوریت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں“ پروفیسر خورشید کی رائے میں ”نظریہ توحید عوامی خلافت کی صورت میں برگ وبار لاتا ہے“۔
مزید فرماتے ہیں ”منتخب خلیفہ انسانوں میں مساوات (Equality among human) کے اصول پر حکومت قائم کرتا ہے۔ اس نظام میں قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ،عدل اور صرف عدل کی بالادستی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ اسلامی طرز حکومت اور معاشرے میں مختلف مذاہب، نسلی اور لسانی گروہوں کے درمیان صحت مندانہ بقائے باہمی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور قومی سطح اور بین الاقوامی سطح پر مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان باہمی تعامل کی فضا کو فروغ حاصل ہوجاتا ہے۔
یہ حکومتی خاکہ لبرل سرمایہ دارانہ تصور ریاست سے سرِمو اختلاف نہیں کرتا اور اگر اس ہی کو اسلامی نظامِ ریاست اور حکومتی نظام کا صحیح خاکہ تصور کرلیا جائے تو پھر اسلامی سیاسی فکر کے اصل رہنما لاک (Locke)، مونٹیسکو (Montesque) جان ایڈم (Johm Adams)، بنجمن فرینکلین (Benjamin Franklin) اور جیفرسن (Jefferson) اور دیگر اٹھارویں اور انیسویں صدی کے لبرل امریکی اور یورپین مفکرین کو ماننا پڑے گا، کیونکہ ظاہر ہے کہ امام ماوردیؒ، امام ابویعلیؒ، امام ابن خلدونؒ یا شاہ ولی اللہؒ کے یہاں تو ”عوامی خلافت“ ”انسانی حقوق“ ”مساواتی عدل“ کفار کے ساتھ بقائے باہمی“ کے کوئی تصورات نہیں ملتے۔ ان میں سے کوئی امام نہ لبرل تھا، نہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا خوگر نہ جہاد کا تارک اور نہ ہی بقائے باہمی کا پرستار۔
لیکن پروفیسر خورشید کے خیالات مولانا مودودیؒ کی غمازی پوری دیانت داری سے کرتے ہیں کیونکہ مولانا مودودیؒ ہی نے ”عوامی خلافت“ کا نظریہ پیش کیا اور1951ء سے1979ء تک لبرل سیاست ہی کرتے رہے۔
پروفیسر خورشید کی مجوزہ عوامی نظام حکومت کی بنیادیں مستحکم کرنے میں لبرل فکر پروفیسر خورشید کے مطابق ”مغربی ممالک نے حکومت میں عوام کی شرکت کا نظام وضع کرنے میں نہایت قیمتی تجربات کیے ہیں ”وہ لبرل نظام ریاست کے تمام اجزائے ترکیبی، کئی جماعتوں پر مشتمل نظام، ایک مخصوص مدت کے لیے سیاسی قیادت کا انتخاب، انتظامیہ سے عدلیہ کی (نام نہاد) علیحدگی، قانون سازی کے لیے اداروں کا نظام“ کو ان قیمتی تجربات میں شامل کرتے ہیں، لہٰذا پروفیسر خورشید کی مجوزہ اسلامی حکومت اپنی ادارتی صف بندی کے ذریعہ ایک سرمایہ دارانہ لبرل ریاست کا چربہ ہوگی۔ پروفیسر خورشید فرماتے ہیں ”مغربی دنیا سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں“۔
لبرل ریاستی ڈھانچہ میں اسلامی پیوندکاری کا جو نقشہ پروفیسر خورشید پیش کرتے ہیں وہ اصولاً وہی ہے جو Lional Binder نے1970ء کی دہائی میں اخوان کو پیش کیا تھا۔ اس چربہ کی بنیاد انسانی مساوات (Human equaliy) کا لبرل اصول ہے۔ جس کا جواز خورشید صاحب کے مطابق قرآنی آیت ۴۵:۷ فراہم کرتی ہے گوکہ کوئی بھی راسخ العقیدہ عالم (بشمول مولانا مودودیؒ) اس آیت کی یہ تشریح پیش نہیں کرتا۔ لبرل ریاست کے اسلامی چربہ میں خلافت کا حق دار پوری اسلامی امت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یعنی لبرل ریاست کے اسلامی چربہ میں کوئی رعایا نہیں ہوتی۔ سب سٹیزن (Citizens) ہوتے ہیں۔ لبرل ریاست کے اسلامی چربہ میں تمام انسانی حقوق (Human Rights) کوشریعت کے دائرہ میں تسلیم کیا گیا ہے (بالکل جس طرح اسرائیلی لبرل جمہوریت تالمود کی تعلیمات کی پابند ہے)
پروفیسر خورشید کی رائے میں ”حکومت عوام کی مرضی کے مطابق ہونی چاہیے“۔
لبرل ریاست کے اسلامی چربہ میں حاکم کو مسلمانوں کی حمایت اور تائید حاصل ہونا لازم ہے کیونکہ مسلمان عوام ہی خلافت کے اصل حق دار ہیں۔ لہٰذا لبرل ریاست کے اسلامی چربہ میں نمائندگی (Representation) کی بنیاد پر ہر فیصلہ میں عوامی شرکت ممکن بنائی جائے گی۔ پروفیسر خورشید کے مطابق یہی شورائیت ہے۔ شورائیت کا یہ تصور بھی کسی راسخ العقیدہ عالم دین نے پیش نہیں کیا اور مولانا مودودیؒ کی تحریرات کے اصل متن میں بھی صراحتاً نمائندہ شورائیت (Representation and Participation) کا یہ تصور موجود نہیں گوکہ یقینا پروفیسر خورشید کا یہ تصور مولانا مودودیؒ کی فکر ہی سے ماخوذ ہے۔ پروفیسر خورشید کی اسلامی لبرلزم میں علماء کا کوئی کردار نہیں وہ علماء کی سیاسی تفوق کو پاپائیت کہتے ہیں۔
پروفیسر خورشید کی مجوزہ ریاست ایک خالص لبرل سرمایہ دارانہ ریاست ہے۔ اس تصور میں ”ہر فرد کے ذاتی، شہری، سیاسی، سماجی، تہذیبی، اقتصادی حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے“ یہ حقوق وہی ہیں جن کی لبرل فکر تصدیق کرتی ہے۔ کیونکہ ”آزادی، مساوات اسلامی معاشرے کی روح رواں ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کا اعتماد حاصل ہونا لازم ہے۔ حاکم عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔
پروفیسر خورشید کی رائے میں اسلامی قانون سازی ایک لبرل طرز عمل کے نتیجہ میں عمل میں آئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”مسلم قوانین کا مجموعی فقہ عوامی جمہوری عمل کے تحت تشکیل پایا۔ نادانستہ طور پر پروفیسر خورشید نے یہاں ہائبرماس (Habermas) کے Communication کے نظریہ کی ناپختہ اور بھونڈی Application پیش کی ہے علم فقہ کے ماہرین فقہ کی ترتیب کی اس نیم پختہ Hebermasian تشریح کو مضحکہ خیز ہی تصور کرسکتے ہیں۔ فقہ کی اس نام نہاد ”عوامی جمہوری بنیاد کا اعتراف مولانا مودودیؒ نے بھی کبھی نہیں کیا۔ خلافت راشدہ ؓ کے انتخابات کی جو تعبیر پروفیسر خورشید پیش کرتے ہیں۔ اس کو بھی مضحکہ خیز ہی کہا جاسکتا ہے۔ پروفیسر خورشید بیعت کو ووٹ Vote کے ہم معنی سمجھتے ہیں۔
پروفیسر خورشید کی مجوزہ ریاست ایک لبرل جمہوری ریاست ہے اور کچھ نہیں۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ شرع کے حدود میں رہتے ہوئے سرمایہ دارانہ ملکیت، عوامی نمائندگی کی بنیاد پر حکومت، ہیومن رائٹس اور سوشل ڈیموکریٹک حقوق کی فراہمی سب ممکن ہے۔ اور لبرل ریاستی نظام کا یہ اسلامی چربہ عالمی سرمایہ دارانہ پبلک آرڈر میں بقائے باہمی کے اصول پر ضم کیا جاسکتا ہے۔ اسلام محض لبرل جمہوریت کا ایک منفرد ماڈل پیش کرتا ہے جو سرمایہ داری کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
بقول پروفیسر خورشید ایک اسلامی معاشرہ تمام لبرل اقدار کا حامل ہے”اسلامی معاشرہ مساوات (Equality)، سماجی ذمہ داری(Social Responsibility)، عدل (Justice) یعنی سب کو مساوی مواقع (Equality of opportunity) کی روایت کی خمیر سے تعمیر کیا جاتا ہے۔
بنیادی انسانی حقوق (Human Rights)، عدلیہ کی آزادی (Separation of the Judiciary form the executive) اقلیتوں کے حقوق (Minorty Rights) ریاست کی پالیسیوں اور حکم رانوں کا عوام کی خواہش کے مطابق انتخابات کا انعقاد یہ سب بھی اسلامی ریاست کے رہنما اصول تصور کیے گئے ہیں اور کلیدی بات ہے کہ لبرل ازم کے ان تمام اقدار کو فروغ دینے کی گنجائش پروفیسر خورشید کے مطابق شریعت فراہم کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں پروفیسر خورشید کی رائے میں شریعت کا تقاضہ ہے کہ ایک لبرل سرمایہ دارانہ جمہوری ریاستی نظام قائم کیا جائے۔ قراردادِ مقاصد کے تناظر میں ہونی والی بحث میں مولانا مودودیؒ نے بھی یہی موقف اختیار کیا تھا جیساکہ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں چونکہ ”ان امور کے متعلق اسلام اور مغربی جمہوریت کے درمیان مشترک بنیادیں ہیں، لہٰذا ان تمام میدانوں میں مسلمان اپنے معاصر مغربی تجربات سے استفادہ کرسکتے ہیں“ حقیقت یہ ہے کہ جہاں بھی لبرل سرمایہ دارانہ جمہوریت کی چربہ کاری کی گئی مغربی ہدایات اور رہنمائی کی بنیاد پر کی گئی۔ غیرمغربی اقوام کی تاریخ بشمول اسلامی تاریخ میں لبرل سرمایہ دارانہ ریاست کے وجود کا کوئی پتہ نہیں ملتا۔
پروفیسر خورشید اس بات کا اقرار یوں کرتے ہیں ”اسلامی ریاست میں شریعت کو بالادستی حاصل ہے اس کے باوجود یہ کوئی مذہبی حکومت نہیں ہوتی۔ شریعت کا سب ہی کو علم ہے۔ یہ کوئی خدائی راز نہیں جس کا علم صرف مفتی کو ہو۔ اسلامی نظام میں قوانین کھلے بحث ومباحثے کے بعد ہی تشکیل دیے جاتے ہیں اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ سب لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ اللہ کی رہنمائی مکمل ہوچکی ہے۔ اب یہ پوری امت کا کام ہے کہ وہ انسانی معاشرہ کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس پر عمل پیرا ہوں۔“
یعنی اسلام کوئی علمیت نہیں محض ایک Habermasian Communicative Practice ہے، جو تاریخی عمل (Process) کے ذریعہ جاری رہتا ہے اور جس کو غیرمشروط اور غیرمحدود رکھنے کے لیے ”اسلام فرد کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے“۔
ان ہی معنوں میں اسلامی ریاست لبرل جمہوریت کا چربہ ہے اور انہی معنوں میں Binder اور Unger ان مفکرین کو مسلم لبرل (Muslim Liberal) کہتے ہیں۔ جو اس نوعیت کی چربہ سازی کو فروغ دیتے ہیں (۲۱)مذہب کی علمیت سے انکار کی تحریک کی جڑیں لوتھر (Luther) کیلون (Calvin) اور ڈیکسٹر (Dexter) کی فکر میں ملتی ہیں اگر اسلام علم نہیں تو اسلامی نظام زندگی کی فوقیت پر اصرار کرنا ایک لغو بات ہے۔ چنانچہ پروفیسر خورشید لکھتے ہیں ”اسلام Pluralism اور رواداری (Tolerance) کو تسلیم کرتا ہے۔ (وہ) کسی بھی سماج کے اندازحیات کو تسلیم کرتا ہے۔
پروفیسر خورشید کا دعویٰ ہے ”حقیقی جمہوریت“ اسلامی ریاستی ڈھانچہ ہی فراہم کرتا ہے۔ ان کے خیال میں مسلم دنیا کی قومی آزادی (National Liberation) کی بیشتر تحریکیں اسلامی تحریکیں ہی تھیں۔ جن کا مقصد ”حقیقی جمہوریت“ کا قیام تھا۔ دورحاضر کی اسلامی تحریکوں کا مقصد بھی ریاستی عمل اور فیصلوں میں عوام کی مؤثر شرکت کو مستقل بنانا ہے۔“ احیاء اسلام اور سیاسی عمل میں عوامی شرکت ایک ہی صورت کے دو رخ ہیں۔ حقیقی جمہوری نظام اور اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں بلکہ عوام کی آزادی، بنیادی حقوق، اقتدار میں عوام کی شرکت پر مبنی جمہوریت اور اسلامی نظام فطری حلیف ہیں“ یہی مسلم لبرل ازم ہے اور یہی مسلم لبرل ازم اسلامی سرمایہ داری کو فروغ دینے کا موثر ترین ذریعہ ہے، کئی امریکی پالیسی سازوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اور پروفیسر خورشید کے مضمون کا پورا زور اس بات پر ہے کہ مغربی ممالک کو یہ باور کر لینا چاہیے کہ ان کا دیرپا مفاد اس ہی میں ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ لبرل جمہوریت کی اسلام کاری کرنے والی قوتوں کو فروغ دیں۔ کیونکہ اسلامی لبرل مجاہدین اسلام کے سب سے کٹر نظریاتی اور سیاستی حریف ہیں۔ پروفیسر خورشید جمہوریت کی شاندار روایات سے ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں وہ اس کو اشد ضروری سمجھتے ہیں کہ سیاسی عمل میں تکثیریت (Pluralism) کا عمل یقینی بنایا جائے۔ اسلام اور جمہوریت ایک ہی سکہ کے دور رخ ہیں۔ اسلامی امنگوں کی تکمیل جمہوری عمل کے آگے بڑھنے ہی سے ممکن ہے۔ احیائے اسلام اور آزادی جمہور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر جمہوریت کا مقصد کسی قوم کی خود ارادیت اور اپنے بل پر تکمیل خودی ہے تو اسلام اور مسلمان روزِ اول سے یہی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔
پروفیسر خورشید کی رائے میں وہ مقصد جس کے لیے مسلمان روز اول سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ مسلم قوم پرستی ہے مسلمان عالمی سرمایہ دارانہ لبرل ازم کے باغی نہیں۔ ان کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ عالمگیر سرمایہ دارانہ لبرل نظام میں اتنی گنجائش پید اکی جائے کہ اس میں رہتے ہوئے اور اسے فروغ دیتے ہوئے مسلمان اپنی مخصوص سرمایہ داری اور اپنی مخصوص لبرل ازم پریکٹس (Practice) کرسکیں۔